تربیت اخلاق ۔ مجلس۴ ۔ ڈاکٹر صبیحہ اخلاق
- 🌍 قرآن اور رسول اکرم ﷺ کی رہنمائی: ویڈیو کے آغاز میں سورۃ جمعہ کی تلاوت اور اس کی تشریح کے ذریعے بتایا گیا کہ اللہ نے رسول اکرم ﷺ کو بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو کتاب کی تعلیم دیں، حکمت سکھائیں اور ان کے دلوں کو جہالت اور اندھیروں سے نکالیں۔ یہ تعلیم آج بھی زندہ ہے اور مومنین کے لیے امید اور حوصلہ ہے۔
- 📖 علم اور روحانیت کی اہمیت: ڈاکٹر صبیحہ وضاحت کرتی ہیں کہ دین صرف ظاہری عبادات تک محدود نہیں بلکہ اس کا تعلق روحانیت اور اخلاقیات سے بھی ہے۔ قرآن اور احادیث میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انسان کے باطن کی اصلاح ہی اصل کامیابی ہے۔
- 🕌 اہل بیتؑ کے مدرسے کی بنیاد: امام زین العابدینؑ نے کربلا کے بعد ظلم و ستم کے ماحول میں دعاؤں اور نصیحتوں کے ذریعے دین کو زندہ رکھا۔ ان کی دعائیں نہ صرف اللہ سے مناجات ہیں بلکہ اخلاقی اور روحانی تربیت کا خزانہ بھی ہیں۔ بعد میں امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ نے اس علمی مدرسے کو وسعت دی اور ہزاروں شاگردوں کو تعلیم دی۔
- 🧪 سائنس اور اسلامی تعلیمات کا رشتہ: امام جعفر صادقؑ کے شاگردوں میں جابر بن حیان جیسے سائنسدان شامل تھے جنہیں کیمیا (کیمسٹری) کا بانی کہا جاتا ہے۔ ان کی تحقیقات آج بھی مغربی جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں، اگرچہ اکثر اوقات مسلمانوں کے علمی ورثے کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
- 🕊️ معافی اور حسنِ سلوک کی تعلیمات: معصومینؑ نے ہمیشہ دوسروں کو معاف کرنے، نرمی اور رحمدلی کا مظاہرہ کرنے کی تعلیم دی۔ امام حسینؑ کے کردار کی مثال دی گئی کہ کس طرح انہوں نے دشمنوں کے ساتھ بھی نیکی اور سخاوت کا رویہ اختیار کیا۔
- 💔 روحانی امراض اور ان کا علاج: جس طرح جسمانی بیماریوں کا علاج دوائیوں سے کیا جاتا ہے، اسی طرح روحانی بیماریوں جیسے غیبت، حسد، بغض اور ریاکاری کا علاج دعا، ذکرِ خدا اور نیک صحبت سے کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان بیماریوں کو نظرانداز کیا جائے تو یہ کینسر کی طرح انسان کے ایمان کو اندر سے کھا جاتی ہیں۔
- 👥 ریاکاری اور نفاق کا خطرہ: قرآن مجید کی سورۃ المنافقون میں منافقین کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ بظاہر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اندر سے دشمنی رکھتے ہیں۔ تاریخ میں عبداللہ بن ابی جیسے لوگ اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنے۔ یہ تعلیم آج بھی مسلمانوں کو خبردار کرتی ہے کہ وہ اپنے معاشرے میں موجود نفاق کو پہچانیں۔
- ⚔️ کربلا اور اس کے بعد کی جدوجہد: 61 ہجری کے بعد اہل بیتؑ نے صبر، استقامت اور علمی محنت کے ذریعے اسلام کو زندہ رکھا۔ امام زین العابدینؑ اور ان کے بعد آنے والے اماموں نے ظلم کے باوجود دین کا پیغام پھیلایا۔
- 🧒 حضرت مسلم بن عقیلؑ کے بچوں کی شہادت: ویڈیو کے آخر میں ان دو بچوں کی دردناک داستان سنائی گئی جنہیں قید میں رکھا گیا اور بالآخر شہید کر دیا گیا۔ ان کی قربانی اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اہل بیتؑ کی تعلیمات اور قربانیاں ہمیشہ ایمان اور اخلاق کے ساتھ وابستہ رہتی ہیں۔
- 🌸 اخلاق کی اصل خوبصورتی: ویڈیو میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انسان کی روح کی خوبصورتی اس کے اخلاق سے جھلکتی ہے۔ اگر دل نرم، محبت بھرا اور دوسروں کے لیے ہمدرد ہو تو اس کی روح خوبصورت ہوگی، لیکن اگر دل میں سختی اور نفرت ہو تو روح بدصورت ہوجاتی ہے۔
- 🙏 اصلاح کا راستہ: انسان کو غرور اور تکبر سے بچنے کے لیے عاجزی اپنانا چاہیے۔ کم حیثیت لوگوں کے ساتھ بیٹھنا، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان کا شکر ادا کرنا ہمیں اپنی اصلاح میں مدد دیتا ہے۔ یہ رویہ غرور اور خود پسندی کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے۔
- 🔍 آج کے حالات سے ربط: ویڈیو میں منافقین کے موجودہ رویوں اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف سازشوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ پیغام دیا گیا کہ مسلمانوں کو ہوشیار رہنا چاہیے، اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنا چاہیے اور دشمن کی چالوں کو سمجھنا چاہیے۔
امام زین العابدینؑ نے ظلم کے دور میں اخلاقی تعلیم کس طرح زندہ رکھی؟
- دعاؤں کے ذریعے تعلیم
- امام سجادؑ نے ظالم حکومت کے دباؤ میں براہِ راست خطبے اور تدریس کم کر دی، لیکن دعاؤں کو ذریعہ بنایا۔
- ان کی صحیفہ سجادیہ صرف مناجات نہیں بلکہ ایک مکمل نصابِ اخلاق ہے، جس میں صبر، شکر، عدل، عفو اور ایثار جیسے مضامین شامل ہیں۔
- نرم لہجہ اور حکمت
- آپؑ نے سخت مخالفت کے باوجود نرم لہجہ اختیار کیا۔
- خطبات اور نصیحتوں میں دشمنوں کو برا بھلا کہنے کے بجائے اللہ کی رحمت اور عدل کا ذکر کیا تاکہ لوگوں کے دل متاثر ہوں۔
- علمی وراثت کی بنیاد
- امام سجادؑ نے تعلیم کا سلسلہ چھپے طریقے سے جاری رکھا۔
- آپ کے شاگرد بعد میں اسلامی فقہ، حدیث اور اخلاق کے بڑے ستون بنے۔
- کربلا کی یاد کو زندہ رکھنا
- امام سجادؑ نے اسیرانِ کربلا کے ساتھ صبر اور استقامت دکھائی۔
- شام اور مدینہ میں خطبات کے ذریعے ظلم کو بے نقاب کیا اور لوگوں کو اہل بیتؑ کی قربانیوں کی یاد دہانی کرائی۔
✅ نتیجہ: امام زین العابدینؑ نے سخت ترین حالات میں دعاؤں، صبر اور حکمت کے ذریعے اسلام کی اصل روح اور اخلاقی تعلیم کو زندہ رکھا۔
روحانی اور جسمانی بیماریوں کا تعلق
- مشابہت
- جس طرح جسمانی بیماری جسم کو کمزور کر دیتی ہے، ویسے ہی روحانی بیماری دل اور ایمان کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔
- جسمانی مرض نظر آتا ہے، لیکن روحانی مرض پوشیدہ ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ انسان کی شخصیت کو تباہ کر دیتا ہے۔
- روحانی بیماریوں کی مثالیں
- حسد (جلن)
- غیبت (پیٹھ پیچھے برائی)
- کینہ اور بغض
- ریاکاری اور نفاق
یہ سب اخلاقی زہر ہیں جو آہستہ آہستہ انسان کو اللہ سے دور کر دیتے ہیں۔
- علاج کا طریقہ
- جس طرح جسمانی بیماری کے لیے ڈاکٹر، دوا اور پرہیز ضروری ہیں، اسی طرح روحانی بیماری کے لیے بھی علاج ہے:
- دعا اور ذکر دل کو صاف کرتے ہیں۔
- نیک صحبت برے خیالات کو کم کرتی ہے۔
- محاسبۂ نفس (خود احتسابی) غلطیوں کو پہچاننے میں مدد دیتی ہے۔
- خطرہ
- اگر جسمانی بیماری کو علاج کے بغیر چھوڑ دیا جائے تو یہ بڑھ کر جان لیوا ہو سکتی ہے۔
- بالکل اسی طرح روحانی بیماری کو اگر نظرانداز کیا جائے تو یہ ایمان کو تباہ کر دیتی ہے اور انسان کو گناہ کے راستے پر لے جاتی ہے۔
✅ نتیجہ: جسمانی اور روحانی بیماریوں میں فرق ضرور ہے لیکن دونوں کے اثرات تباہ کن ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ جسمانی مرض جسم کو متاثر کرتا ہے، جبکہ روحانی مرض انسان کی روح اور اخلاق کو برباد کرتا ہے۔
حضرت مسلم بن عقیلؑ کے بچوں کی قربانی کا اخلاقی پیغام
- پس منظر
- کربلا کے بعد مسلم بن عقیلؑ کے دو کمسن بیٹے قید میں گرفتار ہوئے۔
- ظالم حکمرانوں نے انہیں سخت اذیتیں دیں اور آخرکار شہید کر دیا۔
- صبر اور استقامت
- بچوں نے کم عمری کے باوجود خوف کے آگے ہتھیار نہ ڈالے۔
- انہوں نے اپنے والد اور اہل بیتؑ کی راہ پر چلتے ہوئے ظلم کے سامنے ڈٹنے کا درس دیا۔
- ایمان کی پختگی
- کمسن ہونے کے باوجود ان کے دل اللہ کی یاد اور اہل بیتؑ کی تعلیم سے مضبوط تھے۔
- یہ سکھاتا ہے کہ ایمان صرف بڑوں کے لیے نہیں بلکہ بچے بھی اعلیٰ مثال قائم کر سکتے ہیں۔
- اخلاقی پیغام
- قربانی کا اصل مطلب یہ ہے کہ حق کے لیے اپنی جان تک دینا ہو تو دریغ نہ کیا جائے۔
- بچوں کی قربانی نے یہ دکھایا کہ اہل بیتؑ کی تعلیم ہر عمر میں قوت اور اخلاق پیدا کرتی ہے۔
✅ نتیجہ: حضرت مسلم بن عقیلؑ کے بچوں کی شہادت یہ پیغام دیتی ہے کہ ایمان اور اخلاق عمر کے محتاج نہیں۔ صبر، وفاداری اور حق پر قائم رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔