تربیت اخلاق ۔مجلس ۶ ۔ ڈاکٹر صبیحہ اخلاق

🌍 اخلاقیات کی بنیادی اہمیت

  • ڈاکٹر صبیحہ وضاحت کرتی ہیں کہ اخلاقیات محض نظریاتی موضوع نہیں بلکہ انسانی زندگی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
  • یہ انسان کے کردار کو سنوارتی ہیں اور معاشرے کے اجتماعی ڈھانچے کو مضبوط کرتی ہیں۔
  • اگر اخلاقی اقدار کمزور ہو جائیں تو پھر تعلیم، دولت یا طاقت کسی کو بھی حقیقی کامیابی نہیں دلا سکتیں۔

📖 قرآن کی روشنی میں اخلاق

  • قرآن بار بار عدل، صدق، احسان اور تقویٰ پر زور دیتا ہے۔
  • “اِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ” (النحل 16:90) ایک جامع اصول ہے جو ذاتی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں کو شامل کرتا ہے۔
  • قرآن مومن کی پہچان سچائی اور انصاف کو قرار دیتا ہے جبکہ ظلم، جھوٹ اور فریب کو سختی سے مذموم قرار دیتا ہے۔

🕌 نبی اکرم ﷺ اور اہل بیتؑ کی سیرت

  • نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “میں اخلاق کے اعلیٰ درجے مکمل کرنے کے لیے مبعوث ہوا ہوں”۔
  • آپ ﷺ کا صبر، رحمت اور دشمنوں کو معاف کرنا اخلاقیات کی عملی تعلیم ہے۔
  • اہل بیتؑ کی زندگیاں بھی اخلاقی کمالات سے بھرپور ہیں:
  • امام علیؑ کا عدل اور شجاعت۔
  • امام حسنؑ کی حلم و سخاوت۔
  • امام حسینؑ کی قربانی اور استقامت۔

🧠 اخلاقی زوال کے نقصانات

  • ڈاکٹر صبیحہ موجودہ دور کے مسائل کو اجاگر کرتی ہیں: جھوٹ، ریاکاری، خود غرضی اور بددیانتی۔
  • ان اخلاقی برائیوں کو وہ “دیَمَک” سے تشبیہ دیتی ہیں جو آہستہ آہستہ معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔
  • نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں اعتماد، انصاف اور سکون کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

👥 فرد اور سماج کی ذمہ داریاں

  • اخلاقیات کا دائرہ صرف ذاتی زندگی تک محدود نہیں۔
  • گھر، خاندان، پڑوسیوں، دوستوں اور حتیٰ کہ دشمنوں کے ساتھ بھی اخلاقی رویہ اپنانا ضروری ہے۔
  • اگر فرد نیک ہے مگر اس کی نیکی سماج پر اثر انداز نہیں ہو رہی تو یہ مکمل اخلاق نہیں ہے۔

💔 بے اخلاقی کے اثرات

  • طاقت کا غلط استعمال اور جھوٹ پر مبنی تعلقات معاشرے میں ناانصافی اور بدامنی کو جنم دیتے ہیں۔
  • حسد، بغض اور انتشار بڑھ جاتا ہے جس سے افراد ایک دوسرے پر اعتماد کھو دیتے ہیں۔

🕊 روحانی تربیت اور اخلاق

  • اخلاق محض سماجی رویہ نہیں بلکہ عبادت ہے۔
  • نماز، روزہ، دعا اور ذکر انسان کو اندرونی پاکیزگی عطا کرتے ہیں۔
  • محاسبۂ نفس (Self-accountability) کے ذریعے انسان اپنی غلطیوں پر قابو پا سکتا ہے۔

🌸 اخلاق اور خوبصورتی

  • ڈاکٹر صبیحہ کہتی ہیں کہ جسمانی خوبصورتی وقتی ہے، جبکہ اخلاقی خوبصورتی ہمیشہ باقی رہتی ہے۔
  • اچھے اخلاق انسان کو دوسروں کے دلوں میں محبوب بناتے ہیں اور اسے حقیقی عزت دلاتے ہیں۔

⚔ قربانی اور استقامت

  • کربلا کو اخلاقی قربانی کی سب سے بڑی مثال قرار دیا گیا۔
  • امام حسینؑ نے ظالم کے آگے جھکنے کے بجائے اپنی جان قربان کر دی تاکہ انصاف اور حق زندہ رہیں۔
  • یہ قربانی ہر زمانے کے انسان کے لیے اخلاقی رہنمائی ہے۔

🙏 عملی راستے

  • روزانہ خود احتسابی کرنا۔
  • نیک صحبت اختیار کرنا۔
  • دعا اور ذکر کے ذریعے روحانی طاقت حاصل کرنا۔
  • دوسروں کے ساتھ عدل اور نرمی اختیار کر کے معاشرے میں بہتری پیدا کرنا۔

نتیجہ: اخلاقیات انسان کی ذاتی کامیابی اور معاشرتی فلاح دونوں کی ضمانت ہیں۔ ان کے بغیر نہ عبادت کامل ہے اور نہ ہی معاشرتی ڈھانچہ مضبوط رہ سکتا ہے۔


لیکچر کے مطابق اخلاقیات کی بنیاد بنانے والی چار صفات

ڈاکٹر صبیحہ نے اخلاقیات کی جڑیں چار بنیادی اوصاف میں بیان کیں، جو دراصل باقی تمام اخلاقی خوبیوں کی بنیاد ہیں:

  1. حکمت (Wisdom / بصیرت)
  • درست فیصلے کرنے اور حالات کو سمجھنے کی صلاحیت۔
  • حکمت انسان کو جلد بازی اور جذباتی فیصلوں سے بچاتی ہے۔
  1. عدل (Justice / انصاف)
  • ہر معاملے میں توازن اور برابری قائم رکھنا۔
  • عدل فرد کی زندگی میں بھی ضروری ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔
  1. عفت (Chastity / پاکیزگی)
  • خواہشات پر قابو پانا اور اعتدال اختیار کرنا۔
  • یہ صفت انسان کو غرور، لالچ اور بے حیائی سے بچاتی ہے۔
  1. شجاعت (Courage / بہادری)
  • حق پر ڈٹے رہنا اور ظلم کے سامنے نہ جھکنا۔
  • شجاعت کے بغیر انسان نہ اپنے ضمیر کی حفاظت کر سکتا ہے نہ سماج میں انصاف قائم کر سکتا ہے۔

نتیجہ: یہ چار اوصاف (حکمت، عدل، عفت اور شجاعت) اخلاقیات کے ستون ہیں۔ جب یہ موجود ہوں تو باقی تمام اچھے اوصاف خود بخود پیدا ہوتے ہیں۔


معاشرتی اخلاقی زوال کو “دیَمَک” سے کیوں تشبیہ دی گئی؟

ڈاکٹر صبیحہ نے معاشرتی برائیوں کو “دیَمَک” سے تشبیہ دی، اور اس کی کئی وجوہات بیان کیں:

  1. چھپ کر نقصان پہنچانا
  • دیَمَک لکڑی کو آہستہ آہستہ اندر سے کھوکھلا کرتی ہے، بظاہر لکڑی ٹھیک دکھائی دیتی ہے مگر اندر سے برباد ہو چکی ہوتی ہے۔
  • اسی طرح جھوٹ، فریب، خود غرضی اور ریاکاری معاشرے کو اندرونی طور پر کھوکھلا کر دیتی ہیں۔
  1. آہستہ آہستہ تباہی
  • دیَمَک کا عمل فوری نہیں ہوتا بلکہ وقت کے ساتھ چیزوں کو ختم کر دیتا ہے۔
  • اخلاقی برائیاں بھی یکدم معاشرے کو نہیں توڑتیں بلکہ آہستہ آہستہ اعتماد، محبت اور انصاف ختم کر دیتی ہیں۔
  1. نظر انداز ہونے والا خطرہ
  • اکثر لوگ دیَمَک کو تب تک محسوس نہیں کرتے جب تک نقصان واضح نہ ہو جائے۔
  • اسی طرح معاشرتی برائیوں کو بھی شروع میں معمولی سمجھ کر نظرانداز کیا جاتا ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان کے نتائج خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔

نتیجہ: جھوٹ، ریاکاری، لالچ اور ناانصافی کو “دیَمَک” کہنا اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ یہ برائیاں معاشرے کو اندر سے کھا جاتی ہیں اور آخرکار پورے نظام کو برباد کر دیتی ہیں۔


نبی اکرم ﷺ اور اہل بیتؑ سے ملنے والی اخلاقی تعلیمات

ڈاکٹر صبیحہ نے لیکچر میں یہ واضح کیا کہ رسول اکرم ﷺ اور اہل بیتؑ کی زندگیاں اخلاقی کمالات کا عملی نمونہ ہیں۔ ان کی تعلیمات درج ذیل نکات میں سامنے آتی ہیں:

🕌 نبی اکرم ﷺ کی سیرت

  • آپ ﷺ نے فرمایا: “میں اخلاق کے اعلیٰ درجے مکمل کرنے کے لیے مبعوث ہوا ہوں”۔
  • دشمنوں کو معاف کرنا، یتیموں اور غریبوں کے ساتھ ہمدردی، فیصلوں میں عدل، اور ہر ایک سے شفقت—یہ آپ ﷺ کے اخلاقی کمالات تھے۔
  • آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ثابت کرتی ہے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق ہی ایمان کی تکمیل ہیں۔

⚖ امام علیؑ

  • عدل اور شجاعت کی زندہ مثال۔
  • جنگوں میں بھی انصاف اور رحم کو قائم رکھا۔
  • خلافت میں ہر فیصلہ عدل اور اصول کے مطابق کیا۔

🌸 امام حسنؑ

  • حلم (بردباری) اور سخاوت ان کی نمایاں خصوصیات تھیں۔
  • دشمنوں کو بھی محبت اور احسان سے اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔

🕊 امام حسینؑ

  • استقامت اور قربانی کا اعلیٰ نمونہ۔
  • کربلا میں ظلم کے آگے جھکنے کے بجائے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جان قربان کر دی۔
  • ان کا یہ عمل بتاتا ہے کہ اخلاق کا سب سے بڑا پہلو حق پر ڈٹے رہنا ہے۔

نتیجہ: نبی اکرم ﷺ اور اہل بیتؑ کی سیرت انسانیت کے لیے اخلاقی رہنمائی کا روشن مینار ہے۔ ان کی زندگیاں بتاتی ہیں کہ حقیقی اخلاق عدل، رحمت، حلم اور قربانی میں پوشیدہ ہیں۔