قرآن کی روشنی میں آیتِ ولایت — ڈاکٹر صبیحہ اخلاق

  • 🕌 آیتِ ولایت کی وضاحت
    ڈاکٹر صبیحہ اخلاق نے بتایا کہ آیتِ ولایت کا مقصد صرف ایک سیاسی اعلان نہیں بلکہ یہ ایمان اور روحانیت کے دائرے میں ایک رہنمائی ہے۔ قرآن میں “ولی” کا مطلب مددگار، رہبر اور محافظ ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ ان کے اصل اولیاء (یعنی سرپرست) اللہ، اس کے رسول ﷺ اور وہ مومنین ہیں جو ایمان اور عمل میں ممتاز ہیں۔
  • 🌟 اہلِ بیتؑ کا مقام
    اس آیت میں “ولی” کے مصداق کے طور پر امام علیؑ کا ذکر کیا گیا، خصوصاً اس موقع پر جب آپؑ نے حالتِ رکوع میں اپنی انگوٹھی ایک سائل کو عطا کی۔ اس واقعہ کو مفسرین نے آیتِ ولایت کی عملی تفسیر قرار دیا۔ یعنی امام علیؑ کی سخاوت، ایمان اور قربانی کو اللہ نے قیادت کی علامت بنا دیا۔
  • 📖 قرآنی نظامِ قیادت
    قرآن بتاتا ہے کہ قیادت محض دنیاوی طاقت یا نسب کی بنیاد پر نہیں دی جاتی بلکہ تقویٰ، ایمان، قربانی اور علم کی بنیاد پر ملتی ہے۔ آیتِ ولایت سے واضح ہوتا ہے کہ حقیقی قیادت ان لوگوں کے پاس ہے جو اللہ کی ہدایت کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔
  • ⚖️ عدل و مساوات کا پیغام
    ولایت کا مقصد سماج میں عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔ قرآن کے اس حکم سے یہ سبق ملتا ہے کہ جو بھی مسلمان ولایت کو سمجھ کر قبول کرے گا، وہ ظلم کے بجائے عدل اور ناانصافی کے بجائے مساوات کو اختیار کرے گا۔
  • 🤝 امت کی وحدت
    ڈاکٹر صبیحہ اخلاق نے کہا کہ یہ آیت صرف اہلِ بیتؑ کی فضیلت کو بیان کرنے کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کو ایک جھنڈے تلے متحد کرنے کے لیے نازل ہوئی تھی۔ جب مسلمان اللہ، رسول ﷺ اور اہلِ بیتؑ کی ولایت قبول کرتے ہیں تو ان کے درمیان تفرقہ اور انتشار ختم ہوتا ہے۔
  • 🌍 آج کے دور کے لیے پیغام
    جدید دنیا میں مسلمان مختلف فرقوں اور سیاسی اختلافات کا شکار ہیں۔ آیتِ ولایت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل رہنمائی صرف قرآن اور اہلِ بیتؑ کی تعلیمات میں ہے۔ اگر امت ان اصولوں کو اپنائے تو عالمی سطح پر بھی مسلمانوں کی شناخت اور وحدت بحال ہو سکتی ہے۔
  • 💡 عملی سبق
    یہ آیت ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنی زندگی میں دیکھیں کہ ہم کس کی پیروی کر رہے ہیں۔ کیا ہماری ولایت دنیاوی حکمرانوں، دولت مندوں اور طاقتور لوگوں کے ساتھ ہے، یا ہم حقیقی معنوں میں اللہ، رسول ﷺ اور اہلِ بیتؑ کے راستے پر ہیں؟

🔢 بصیرت پر مبنی نکات

  • “چالیس ہزار” افراد کی مثال قیادت کی قوت کو ظاہر کرتی ہے، لیکن اس کے باوجود اصل قیادت چند منتخب اہلِ بیتؑ کے پاس رہی۔
  • “مدینہ سے پاکستان” جیسے جملے یہ پیغام دیتے ہیں کہ ولایت کا پیغام زمان و مکان سے بالاتر ہے۔
  • “انگوٹھی دینے کا واقعہ” آیتِ ولایت کی عملی مثال ہے جو قیادت کے اصول کو ظاہر کرتا ہے۔

قرآن کی روشنی میں ولایت اور سیاسی قیادت میں کیا فرق ہے؟

  • 🕌 ولایت الٰہی ذمہ داری ہے، سیاست دنیاوی اقتدار:
    قرآن کے مطابق “ولی” وہ ہے جو اللہ کے حکم سے ایمان والوں کی سرپرستی کرے۔ یہ روحانی اور اخلاقی قیادت ہے۔ جبکہ سیاسی قیادت اکثر دنیاوی طاقت، دولت یا جمہور کی اکثریت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔
  • 📖 ولایت تقویٰ پر مبنی ہے:
    آیتِ ولایت میں واضح کیا گیا کہ حقیقی ولی وہ ہیں جو ایمان، نیک عمل اور قربانی کی اعلیٰ مثال ہوں (جیسے امام علیؑ کا انگوٹھی دینا)۔ سیاسی قیادت میں یہ معیار لازمی نہیں ہوتا۔
  • ⚖️ ولایت عدل و ہدایت کی ضامن ہے:
    ولایت کا مقصد عدل قائم کرنا اور لوگوں کو ہدایت دینا ہے، جبکہ سیاسی قیادت اکثر اقتدار کی بقا اور دنیاوی مفادات کے لیے کام کرتی ہے۔
  • 🌍 ولایت امت کو متحد کرتی ہے:
    قرآن کی ولایت مسلمانوں کو ایک جھنڈے تلے لاتی ہے۔ جبکہ دنیاوی سیاسی قیادت قوموں اور گروہوں کو تقسیم بھی کر سکتی ہے۔
  • اختلاف کا نتیجہ:
    ولایت کو الٰہی ہدایت کے طور پر ماننے سے ایمان مضبوط ہوتا ہے اور معاشرہ انصاف کی طرف بڑھتا ہے، جبکہ صرف سیاسی قیادت پر انحصار کرنے سے امت تفرقہ اور ظلم کا شکار ہو جاتی ہے۔

🔹 نتیجہ یہ کہ ولایت ایک روحانی اور الٰہی قیادت ہے جو انسان کو اللہ کے قریب کرتی ہے، جبکہ سیاسی قیادت صرف دنیاوی نظام چلانے تک محدود رہتی ہے۔

واب

آیتِ ولایت کے تناظر میں امام علیؑ کی شخصیت کو کس طرح سمجھا جا سکتا ہے؟

  • 🌟 ایمان اور قربانی کی علامت:
    آیتِ ولایت امام علیؑ کے اس عمل سے جڑی ہے جب آپؑ نے حالتِ رکوع میں اپنی انگوٹھی سائل کو عطا کی۔ یہ بتاتا ہے کہ امامؑ کا ایمان اور ایثار اتنا بلند تھا کہ عبادت کے دوران بھی ضرورت مند کو فراموش نہ کیا۔
  • 🕌 قرآنی قیادت کے عملی نمونہ:
    قرآن نے جس “ولی” کی نشاندہی کی، امام علیؑ اس کا حقیقی نمونہ ہیں۔ وہ صرف سیاسی لیڈر نہیں بلکہ روحانی اور اخلاقی رہبر بھی ہیں، جن کی قیادت عدل، مساوات اور تقویٰ پر مبنی ہے۔
  • ⚖️ عدل کے امام:
    امام علیؑ کی زندگی عدل و انصاف کی مثال ہے۔ ان کی خلافت اور اقوال آج بھی عدلیہ، سیاست اور معاشرت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
  • 📖 علم اور حکمت کے وارث:
    امام علیؑ کو “باب العلم” کہا جاتا ہے۔ ان کا علم قرآن اور سنت کے عین مطابق تھا، اسی لیے آیتِ ولایت نے یہ واضح کر دیا کہ حقیقی قیادت علم و تقویٰ کے وارث کے پاس ہے۔
  • 🤝 امت کی وحدت کے ضامن:
    آیتِ ولایت نے امام علیؑ کو امت کی وحدت کا محور قرار دیا۔ اگر مسلمان ان کی ولایت کو قبول کرتے تو امت میں تفرقہ نہ پھیلتا۔

🔹 نتیجہ یہ کہ امام علیؑ کی شخصیت آیتِ ولایت کا زندہ ثبوت ہے: وہ ایثار، عدل، علم اور روحانی قیادت کے اعلیٰ معیار پر فائز ہیں۔

آج کے دور میں آیتِ ولایت کا پیغام مسلمانوں کے اتحاد کے لیے کس طرح رہنمائی فراہم کرتا ہے؟

  • 🕌 ایک مرکز کی طرف رجوع:
    آیتِ ولایت بتاتی ہے کہ اصل ولایت اللہ، رسول ﷺ اور اہلِ بیتؑ کی ہے۔ اگر مسلمان اپنے اختلافات سے اوپر اٹھ کر اسی مرکز کی طرف رجوع کریں تو امت میں اتحاد پیدا ہو سکتا ہے۔
  • ⚖️ عدل اور مساوات کی بنیاد:
    آیت کا مقصد صرف قیادت طے کرنا نہیں بلکہ عدل قائم کرنا ہے۔ آج کے معاشرتی اور سیاسی ظلم کے ماحول میں آیتِ ولایت عدل پر مبنی نظام کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو سب کو قریب لا سکتا ہے۔
  • 🌍 فرقہ واریت کا علاج:
    امت مسلمہ مختلف فرقوں میں بٹ گئی ہے۔ آیتِ ولایت یہ سبق دیتی ہے کہ حقیقی قیادت دنیاوی سیاست یا طاقت کے زور پر نہیں بلکہ تقویٰ اور ایمان کے معیار پر ہونی چاہیے۔ یہ سوچ فرقہ واریت کو کم کر سکتی ہے۔
  • 🤝 امت کو ایک خاندان بنانا:
    اگر مسلمان آیتِ ولایت کے اصول پر عمل کریں تو سب ایک ہی ولی کے تابع ہو جائیں گے۔ اس سے باہمی اعتماد، اخوت اور اتحاد پیدا ہوگا۔
  • 💡 عصرِ حاضر کے لیے عملی پیغام:
    عالمی سطح پر مسلمان سیاسی طور پر کمزور اور منتشر ہیں۔ آیتِ ولایت کا پیغام یہ ہے کہ امت صرف اس وقت مضبوط ہوگی جب وہ دنیاوی حکمرانوں کی بجائے الٰہی ولایت کو اپنا محور بنائے۔

🔹 خلاصہ یہ کہ آیتِ ولایت آج بھی امت کو یاد دلاتی ہے کہ اصل وحدت، نجات اور طاقت قرآن اور اہلِ بیتؑ کی ولایت کو قبول کرنے میں ہے۔