قرآن اور ہماری ذمہ داریاں ۔ ڈاکٹر صبیحہ اخلاق

قرآن اور ہماری ذمہ داریاں – ڈاکٹر صبیحہ اخلاق

  • 🌍 انسانی زندگی اور بنیادی سوالات
    ڈاکٹر صبیحہ اخلاق گفتگو کے آغاز میں وضاحت کرتی ہیں کہ ہر انسان کے ذہن میں تین بنیادی سوالات لازمی پیدا ہوتے ہیں:
  1. میں کون ہوں؟
  2. میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟
  3. موت کے بعد میرا انجام کیا ہوگا؟
    یہ سوالات محض فلسفیانہ نوعیت کے نہیں بلکہ عملی زندگی کو تشکیل دیتے ہیں۔ قرآن ان سوالات کے جوابات نہایت وضاحت اور حقیقت پسندی کے ساتھ دیتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کو “کتاب ہدایت” کہا جاتا ہے۔
  • 📖 قرآن کی حیثیت بطور رہنمائی
    قرآن مجید محض تلاوت کے لئے نہیں نازل ہوا بلکہ انسان کو تدبر اور عمل کی دعوت دیتا ہے۔ اس میں نہ صرف عقائد و عبادات بلکہ سماجی عدل، معیشت، اخلاقیات، اور انسانی رشتوں کی بنیاد بھی موجود ہے۔ مقررہ کہتی ہیں کہ قرآن ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی دیتا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ آج زیادہ تر لوگ اسے صرف رسم کے طور پر پڑھتے ہیں، اس پر غور و فکر اور عمل نہیں کرتے۔
  • 🏭 مادی ترقی اور مشینوں کا غلبہ
    جدید دور میں انسان نے بے شمار سائنسی ایجادات کیں، لیکن ان سہولتوں نے انسان کو رشتوں سے دور اور مشینوں پر انحصار کرنے والا بنا دیا۔ مشینوں نے زندگی آسان تو کی ہے، مگر ان کے نتیجے میں خاندان کا نظام متاثر ہوا، والدین اور اولاد میں فاصلہ بڑھ گیا اور رشتے محض ضرورت تک محدود ہو گئے۔ مقررہ یہ بھی واضح کرتی ہیں کہ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال نے انسان کو تنہائی، ذہنی دباؤ اور تعلقات کے بحران کا شکار کر دیا ہے۔
  • 👨‍👩‍👧‍👦 خاندان اور سماج میں بگاڑ
    دولت اور مادہ پرستی نے خاندان کے نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ والدین اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر پاتے اور بچے والدین سے کٹ جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معاشرتی بگاڑ، گھریلو جھگڑے اور نئی نسل میں اخلاقی زوال سامنے آیا۔ اصل خوشی اور سکون دولت یا آسائش میں نہیں بلکہ رشتوں، محبت اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہے۔
  • 🕌 اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل
    مقررہ بتاتی ہیں کہ قرآن اور سنت کی تعلیمات ہر دور کے لئے عملی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ اسلام انسان کو توازن، عدل، اخوت اور محبت کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن جب مسلمان معاشرہ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کرتا ہے تو وہ اپنی بنیاد کھو دیتا ہے۔ اس بگاڑ کا واحد حل یہ ہے کہ ہم قرآن کو سمجھیں، اس پر عمل کریں، اور اپنی نسل کو اس کی تعلیم دیں۔
  • 💡 موجودہ دور کے چیلنجز
    معاشرتی بگاڑ کے علاوہ دنیا بھر میں غربت، بھوک، معاشی دباؤ اور اخلاقی بحران جیسے مسائل سامنے ہیں۔ مقررہ خاص طور پر اس بات پر زور دیتی ہیں کہ دولت کی دوڑ نے انسان کو اندھا کر دیا ہے اور وہ اپنی اصل ذمہ داری یعنی انسانیت کی خدمت اور اللہ کی بندگی بھول چکا ہے۔
  • 🔑 ذمہ داری اور عملی اقدامات
    ڈاکٹر صبیحہ اخلاق یہ نتیجہ اخذ کرتی ہیں کہ ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم قرآن کو صرف پڑھیں نہیں بلکہ اس پر غور کریں، اس کی تعلیم کو اپنی زندگی میں اتاریں، اور اپنی نئی نسل کو قرآن کی صحیح رہنمائی فراہم کریں۔ اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

اعداد و شمار پر مبنی بصیرتیں

  • “250 صدیوں” اور “300 سال” جیسے تاریخی حوالوں کے ذریعے یہ واضح کیا گیا کہ انسانی ترقی کا عمل طویل ہے مگر اخلاقی زوال تیزی سے آیا ہے۔
  • “98100” جیسے الفاظ سے مشینوں پر حد سے زیادہ انحصار اور انسانی محنت کی کمی کو ظاہر کیا گیا۔
  • “ایک لاکھ پچیس ہزار” بھوک سے متاثرہ افراد کا ذکر انسانیت کے اصل مسائل کی طرف توجہ دلاتا ہے، جو کہ دولت اور آسائش کی دوڑ میں نظر انداز ہو گئے ہیں۔

قرآن کے مطابق انسان کے بنیادی سوالات کے جوابات

1. میں کون ہوں؟

قرآن انسان کو یاد دلاتا ہے کہ وہ محض جسمانی وجود نہیں بلکہ اللہ کی تخلیق ہے۔

  • اصل: اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا اور اپنی روح پھونکی (سورۃ الحجر 15:29)۔
  • مقام: انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا تاکہ وہ زمین پر خلافت انجام دے (سورۃ البقرہ 2:30)۔
    یعنی انسان کی پہچان صرف حیوانی یا مادی نہیں بلکہ روحانی و اخلاقی بھی ہے۔

2. میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟

قرآن واضح طور پر بتاتا ہے: “میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے” (سورۃ الذاریات 51:56)۔

  • عبادت کا مطلب صرف نماز یا روزہ نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالنا ہے۔
  • مقصد یہ ہے کہ انسان عدل، خیرخواہی اور انسانیت کی خدمت کرے۔

3. میرا انجام کیا ہوگا؟

قرآن بتاتا ہے کہ موت ایک اختتام نہیں بلکہ ایک نیا آغاز ہے۔

  • قیامت: ہر انسان کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اس کے اعمال کا حساب ہوگا (سورۃ الزلزال 99:6-8)۔
  • انجام: نیک اعمال جنت اور برے اعمال جہنم کی طرف لے جائیں گے۔
    یعنی انسان کو اپنی زندگی ایسے گزارنی ہے جیسے کل آخرت کا حساب ہونے والا ہے۔

نتیجہ:
قرآن کے مطابق یہ تین سوالات انسان کو یہ سکھاتے ہیں کہ:

  • وہ اللہ کی مخلوق ہے جس کا مقام بلند ہے۔
  • اس کی زندگی کا اصل مقصد اللہ کی عبادت اور بندگی ہے۔
  • اس کی موت کے بعد حقیقی زندگی ہے جس میں نجات صرف ایمان اور عمل صالح سے ممکن ہے۔

ٹیکنالوجی اور دولت کی دوڑ نے رشتوں اور خاندانی نظام پر اثرات

🌟 مثبت اثرات

  1. سہولت اور آسانی
  • جدید ٹیکنالوجی نے روزمرہ زندگی کو آسان بنایا ہے۔ سفر، رابطہ، علاج اور تعلیم میں سہولت پیدا ہوئی۔
  • خاندان کے افراد دنیا کے کسی بھی کونے میں رہ کر ایک دوسرے سے ویڈیو کالز اور پیغامات کے ذریعے جُڑے رہ سکتے ہیں۔
  1. معاشی مواقع
  • نئی ایجادات اور سرمایہ کاری نے روزگار کے مواقع بڑھائے۔
  • تعلیم اور کاروبار کے دروازے وسیع ہوئے جن سے خاندان معاشی طور پر مضبوط ہوئے۔

⚠️ منفی اثرات

  1. رشتوں میں دوری
  • مشینوں اور سکرینز پر وقت گزارنے نے والدین اور بچوں کے درمیان قربت کو کم کر دیا۔
  • ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد زیادہ وقت موبائل یا ٹی وی پر گزارتے ہیں، گفتگو اور تعلقات کمزور ہو گئے۔
  1. دولت پر اندھا اعتماد
  • دولت کی دوڑ نے انسان کو یہ باور کرایا کہ خوشی صرف مادی اشیاء میں ہے، جبکہ اصل سکون محبت اور تعلقات میں تھا۔
  • والدین اکثر مصروفیت اور کمائی کی دوڑ میں بچوں کی تربیت اور وقت دینے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
  1. اخلاقی اور روحانی زوال
  • نئی نسل زیادہ تر مغربی طرزِ زندگی سے متاثر ہو رہی ہے جس میں انفرادیت (individualism) غالب ہے۔
  • قرآن اور اسلامی اقدار سے دوری بڑھ رہی ہے کیونکہ ٹیکنالوجی نے وقتی لذت اور تفریح کو ترجیح بنا دیا ہے۔

✅ نتیجہ

ٹیکنالوجی اور دولت بذاتِ خود برائی نہیں ہیں، لیکن جب ان پر ضرورت سے زیادہ انحصار کیا جائے تو رشتے، خاندان اور معاشرتی اقدار متاثر ہوتے ہیں۔ قرآن ہمیں توازن اور اعتدال سکھاتا ہے تاکہ ہم سہولتوں سے فائدہ بھی اٹھائیں مگر اپنے رشتوں، ذمہ داریوں اور روحانی پہچان کو نہ کھوئیں۔


نئی نسل کو قرآن اور اسلامی تعلیمات کی طرف متوجہ کرنے کے عملی اقدامات

1. گھریلو سطح پر تربیت

  • والدین خود قرآن کی تلاوت اور فہم میں شامل ہوں تاکہ بچے عملی نمونہ دیکھیں۔
  • گھروں میں روزانہ تھوڑا وقت قرآن کے لئے مختص کیا جائے، مثلاً سادہ ترجمہ اور چھوٹی تفاسیر پڑھائی جائیں۔
  • والدین بچوں کے سوالات کو محبت اور حکمت سے سنیں اور قرآن کی روشنی میں جواب دیں۔

2. تعلیمی اداروں میں نصاب

  • اسکول اور کالج کے نصاب میں قرآن کی عملی تعلیم شامل کی جائے، محض زبانی یا تجوید کی حد تک نہیں۔
  • قرآن کو سائنس، سماجیات اور اخلاقیات کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا جائے تاکہ نوجوان اسے “عملی کتاب” سمجھ سکیں۔
  • طلباء کو گروپ ڈسکشن اور پراجیکٹ ورک کے ذریعے قرآنی اصولوں پر غور کا موقع دیا جائے۔

3. ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال

  • نئی نسل چونکہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے قریب ہے، اس لئے ایپس، پوڈکاسٹ، یوٹیوب چینلز اور شارٹ ویڈیوز کے ذریعے قرآن کا پیغام جدید انداز میں پیش کیا جائے۔
  • انٹرایکٹو گیمز اور ای لرننگ کورسز تیار کیے جائیں جو قرآن کی تعلیمات کو دلچسپ اور آسان بنائیں۔

4. مساجد اور کمیونٹی کی سطح پر کردار

  • مساجد کو صرف نماز کی جگہ نہیں بلکہ تعلیم اور تربیت کے مراکز بنایا جائے۔
  • قرآن فہمی کے حلقے، سوال و جواب کی نشستیں اور عملی ورکشاپس منعقد کی جائیں۔
  • کمیونٹی لیڈرز نوجوانوں کو معاشرتی خدمت کے منصوبوں میں قرآن کے اصولوں کی بنیاد پر شامل کریں۔

5. رول ماڈلز کی مثالیں

  • تاریخ کے عظیم مسلمان علماء، سائنسدانوں اور قائدین کی مثالیں دی جائیں جنہوں نے قرآن سے رہنمائی حاصل کر کے دنیا کو فائدہ پہنچایا۔
  • آج کے دور میں بھی ایسے افراد کو سامنے لایا جائے جو قرآن کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔

نتیجہ
نئی نسل کو قرآن کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کو صرف ایک مذہبی کتاب کے طور پر نہ پیش کیا جائے، بلکہ زندگی کے ہر پہلو کی عملی رہنمائی کے طور پر دکھایا جائے۔ جب بچے اور نوجوان دیکھیں گے کہ قرآن ان کی روزمرہ زندگی کے سوالات کا جواب دیتا ہے، تو وہ خود بخود اس سے جڑ جائیں گے۔